Mufti Shoaib Raza Naeemi Alaihir Rahma

 

عرسِ محسنِ ملت، دامادِ حضور تاج الشریعہ، حضرت علامہ مفتی محمد شعیب رضا نعیمی رحمۃ اللہ علیہ   

 

تم نہیں ہو تو سُونی ہے بزمِ سخن

تم سے شاداب تھے آگہی کے چمن

(حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ)

 

از قلم: مشتاق احمد اویسی امجدی

خادم الافتاء، امام احمدرضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر، ناسک، مہاراشٹر، موبائیل 8830789911

    یوں تو شخصتیں ہمیشہ آتی ہیں اور اپنی حیات مستعارکے لیل و نہار پورے کرکے روپوش ہوجاتی ہیں، چند دنوں بعد لوگ انہیں بھول جاتے ہیں مگر کچھ ہستیاں وہ ہوتی ہیں جو اس دارِ فانی سے دارِ بقا کو کوچ کرتے کرتے بندگانِ خدا پر اتنا گہرا اثر چھوڑ جاتی ہیں کہ برسوں ان کی یادوں سے اہلِ ایمان کے قلوب پرُ نور نظر آتے ہیں۔ انہیں نفوسِ قدسیہ میں ایک عظیم ذات دامادِ حضور تاج الشریعہ، فقیہ عصر، محسنِ ملت، حضرت مولانا مفتی محمد شعیب رضا نعیمی رحمۃ اللہ علیہ کی بھی ہے۔

   آپ انتہائی باوقار و بلند کردار، ذہین و فطین، شکیل و وجیہ اور باعمل عالم، جماعت اہل سنت کے بے لوث داعی، مذہبِ اہل سنت کے وسیع النظر مبلغ اور گلشنِ ازہری کے مہکتے پھول تھے۔ اعلیٰ نسبت اور اونچا علمی قد رکھنے کے ساتھ ساتھ آپ اخلاق حسنہ کے پیکر اور خصائل نبیلہ کےحامل بھی تھے۔

خاندانی پس منظر

   آپ نے ایک معزز زمین دار شیخ صدیقی گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ آپ کی پیدائش 27 کتوبر 1974ء میں ضلع بجنور، تحصیل نجیب آباد، مقام دودھلہ میں ہوئی۔ آپ کا پورا نام “محمد شعیب رضا”ہے۔ آپ کے والد ماجد حاجی شفیق احمد مرحوم صحیح العقیدہ اور شریف النفس انسان تھے۔

شجرۂ نسب

   آپ کا شجرۂ پدری اس طرح ہے”محمد شعیب رضا بن حاجی شفیق احمد بن شبیر احمد بن نثار احمد”۔

تعلیم وتربیت

   آپ نے ابتدائی تعلیم علاقائی مدرسوں میں حاصل کی۔ باضابطہ درسِ نظامی کی تکمیل 1993ء میں جامعہ نعیمیہ مراد آباد سے کی۔ مرکزی دارالافتاء بریلی شریف سے حضور تاج الشریعہ، علامہ تحسین رضا خاں اور مفتی قاضی عبد الرحیم بستوی علیہم الرحمہ سے فتویٰ  نویسی سیکھی اور سندِ افتاء سے نوازے گئے۔ 1999 ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سےM. Th  کی ڈگری حاصل کی۔ ۔۔۔۔ میں شہادۃ السیر و السلوک دارا العلوم المدرسۃ العالیہ گورنمنٹ اورینٹل کالج رامپور سے حاصل کی، 1992ء جامعہ دارالسلام مراد آبادسے عربی میں ڈپلوما کورس کیا، 1993 ء میں جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب کامل کیا۔

اساتذۂ کرام

آپ کے قابل ذکر اساتذہ میں استاذ الفقہا حضرت علامہ مفتی ایوب نعیمی اور استاذ المعقولات علامہ ہاشم مرادآ بادی کے اسما سرِ فہرست ہیں۔

دینی و ملی خدمات

   جب زبان و بیان، تفکر و تدبر کے ہتھیار سے مکمل لیس ہوگئے تو میدانِ عمل میں قدم رکھا اور پوری تندہی کے ساتھ فرزندانِ اسلام کی اصلاح، مسلکِ حق، مسلک اعلی حضرت کی تعمیر و ترقی میں لگ گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اکنافِ عالم میں مقبولیت کی سند حاصل کر لی۔

   مذہب و مسلک میں آپ انتہائی متصلب تھے۔ اعلیٰ حضرت اور مسلک اعلی حضرت کا گن گانا آپ کی زندگی کا نصب العین تھا۔ آپ نے بے خوف لومۃ لائم اپنی پوری زندگی مسلک اعلیٰ حضرت کے فروغ واستحکام میں صرف فرمائی۔ مسلکِ اعلیٰ حضرت کے خلاف جو کوئی، جہاں کہیں سر اُبھارنے کی کوشش کرتا، آپ  وسائل کی پرواہ کیے بغیر اس کی سرکوبی کے لیے نکل پڑتے اور بزرگوں کے وسیلے سے ہر فتنہ و فساد کو کیفر کردار تک پہنچانے کی کوشش فرماتے۔ آپ اپنی تحریر و تقریر اور دعوت و تبلیغ کے ذریعہ لوگوں میں سنیت کی روح پھونکنا چاہتے تھے۔ مشربی اختلافات میں حد درجہ محتاط رہتے، جب کبھی مشربی انتشار کی مسموم ہوا چلتی تو آپ مضبوط چٹان بن کر بنرد آزما ہوتے اور اپنی تدبرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ’’کونوا عباد اللہ اخوانا‘‘ کا پیغامِ لا زوال پیش کرتے نظر آتے۔

تبلیغی اسفار

   آپ اخاذ طبیعت کے مالک تھے، اولاً چند سالوں تک وارثِ علومِ اعلیٰ حضرت، جانشینِ مفتی اعظم حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کے ساتھ ہند و بیرون ہند کے بیشتر تبلیغی دوروں میں ساتھ رہتے تھے۔ اس دوران آپ کو حضور تاج الشریعہ سے بہت کچھ حاصل کرنے کا موقع ملا۔ بعدہ حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی ایما پر آپ نے ہندوستان کے علاوہ افریقی ممالک اور دبئی وغیرہ کے متعدد سفر کیے۔ آپ پہلی بار 3/مارچ 2005 ء کو ملاوی تشریف لے گئے۔ اس کے بعد 17 مارچ 2009 ء، 12 جون 2010 ء،20 دسمبر 2011 ء سے 26 فروری 2011 ء، 20 نومبر و 23 نومبر 2012 ء، اگست و نومبر 2016 ء کی مختلف تاریخوں میں ملاوی تشریف لے گئے اور دعوت دین کی خدمت انجام دی۔ آپ ساوتھ افریقہ کے مختلف شہروں میں پہنچے مثلا 3/مارچ 2009 ء کو پہلی بار جا نا ہوا، بعدہ 22/اپریل 2010 ء، 8/فروری 2010 ء، 22 فروری 2011 ء، 8 دسمبر 2011 ء، 17 اکتوبر 2013 ء، 23 جنوری 2013ء میں بھی تشریف لے گئے۔ ان ممالک کے علاوہ لیلانگ وے 3/مارچ 2005 ء، موزمبک 16/مارچ 2009 ء، زمباوے 8 مارچ 2009 ء، 8-9 مئی 2010 ء میں بھی تشریف لے گئے جہاں پر آپ نے کئی عیسائیوں کو داخل اسلام کیا اور کئی بدمذہبوں سے توبہ کرائی اور داخل سلسلہ رضویہ کیا اور پورے اخلاص و للہیت کے ساتھ دین وسنیت کی تبلیغ اور فکر رضا کی ترویج واشاعت کرتے رہے۔

اَپ کی حیات کے دواہم اور یادگار سفر

   یوں تو آپ کی زندگی میں اسلام کی سربلندی کے لیے سرفروشی کے کئی واقعات درج ہیں لیکن مندرجہ ذیل دو واقعات جو آپ کے مجاہدانہ کردار  پر واضح دلیل ہیں، قارئین ضرور پڑھیں اور ان کی ہمت کا اندازہ لگائیں۔

پہلا واقعہ سرزمین مہاراشٹر کا ہے۔۔۔

    اس کی تفصیل یہ ہے کہ ناسک سے 70/کیلو میٹر دور ضلع احمد نگر ہے۔ اس ضلع میں ’’سنگم نیر‘‘ شہر ہے جہاں اہل سنت وجماعت کی تعداد کم ہے۔ وہاں کے ایک دیوبندی مولوی مفتی سالم نے علمائے اہل سنت کو چیلنج کیا، اکابرین اہل سنت بالخصوص اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کے خلاف تازیبا کلمات بکے، جب یہ خبر اہل ناسک کو ہوئی تو بڑا صدمہ پہنچا، علما کی میٹینگ ہوئی، ہر آدمی پریشان تھا کیونکہ ایسی جگہ جہاں اپنوں کی تعداد کم ہے وہاں جاکر پروگرام کرنا اور جواب دینا آسان نہیں ہے، ان حالات میں بڑا فیصلہ لینا سب کے بس کی بات نہیں، ایسے وقت میں مرد حق آگاہ، مسلک رضا کے بے باک سپاہی حضرت مولانا مفتی محمد شعیب رضا نعیمی علیہ الرحمہ نے جان پر کھیل کر وہاں جانے کا فیصلہ کیا، آپ کے ساتھ شہر ناسک کے ذمہ دار علما و مفتیان کرام مثلا مفتی سید رضوان شافعی کوکنی، مولانا سید آصف اقبال، مفتی رحمت علی امجدی، مفتی محبوب عالم، مفتی شمس الدین، راقم الحروف مشتاق احمد قادری امجدی وغیرہم اور ان کے علاوہ امام احمد رضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے اراکین جناب اقبال خطیب، مجاہد خان، توصیف سر، عابد خان، عبد المبین شیخ وغیرہ دسیوں گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ سنگم نیر پہونچے۔ جب دیوبندی مولوی کو خبر ہوئی کہ حق کے سپہ سالاروں کی آمد ہوگئی ہے تو دیوبندی مولوی ایسے غائب ہوئے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ جب کسی صورت دیوبندی مولوی سا منا کرنے کو تیار نہ ہوئے تو سنیوں نے آناً فاناً ایک جلسہ کیا جس میں مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے رد وہابیہ میں ایک مفصل و مدلل تقریر فرمائی اور ثابت کر دیا کہ رضا کے شیر کسی کو چھیڑتے نہیں اور اگر کوئی چھیڑتا ہے تو اسے چھوڑتے نہیں۔

دوسرا واقعہ سرزمین اڈیسہ کا ہے۔۔۔

   ہوا یوں کہ 16/فروری 2015 ء بھدرک اڈیسہ کے ایک جلسے میں وہاں کے احباب کی دعوت پر تشریف لے گئے، جلسہ ابھی شروع ہی ہوا تھا، تھوڑی دیر بعد آپ اسٹیج پر تشریف لائے، آپ کے خطاب کا اعلان ہوا، جیسے ہی آپ نے خطبہ پڑھا ایک بدنام زمانہ فسادی مولوی، جس نے بھدرک وغیرہ کے مذہبی حالات کو کافی خراب کر رکھا تھا،اس کی بد کرداری اور فاسقانہ عمل کے سبب عوام الناس سے علماء کا وقار خطرے میں ہے، اس کے چیلوں نے آپ پر جان لیوا حملہ کیا، چاروں طرف بھگدڑ مچ گئی، سب کو اپنی فکر تھی، ایسے میں اس علاقے کے ایک پیر جو سادات سے تھے انہوں نے اپنے مریدوں کے ساتھ آپ کو اپنے گھیرے میں لے کر محفوظ مقام تک پہنچایا لیکن ان حالات سے مفتی صاحب کبھی پژمردہ خاطر نہ ہوئے اور نہ ہی حوصلہ پست ہوا بلکہ آپ کی تبلیغی کوششوں میں اور سختی پیدا ہوئی اور آپ نے یہ سمجھ لیا کہ گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے۔

تحریری خدمات

 کتب بینی اور ملکی وغیر ملکی تبلیغی دورے آپ کے محبوب مشاغل تھے، تبلیغی اسفار کی کثرت کے باوجود تحریر و قلم سے خاصا شغف رکھتے تھے۔ چنانچہ مرض الموت سے قبل آپ نے دو اہم تحقیقی عربی کتب کے ترجمے کیے جو ماہنامہ سنی دنیا میں قسط وار چھپ چکے ہیں، جسے قارئین نے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور داد وتحسین سے نوازا۔

تعمیری  خدمات

   آپ نے مختلف مقامات پر مسلک اعلی حضرت کی ترویج و اشاعت کے لیے اپنی بابرکت قیادت میں متعدد ادارے بھی قائم فرمائے۔ شہر گلشن آباد ناسک، مہاراشٹر میں فقہ حنفی کا مفتی ساز ادارہ ’’امام احمدر ضا لرننگ اینڈ ریسرچ سینٹر‘‘ کا قیام آپ ہی کا مرہون منت ہے جو مسلک اعلی حضرت کا حقیقی ترجمان اور صوبہ مہاراشٹر میں فقہ حنفی کا منفرد مفتی ساز ادارہ  ہے۔

بارگاہِ غوثیت میں عزت افزائی

   وصال شریف سے تقریبا ایک سال قبل خوش قسمتی سے بغداد شریف بارگاہِ غوثیت مآب میں حاضری کا شرف حاصل کیا۔ جب وہاں کے شیوخ اور متولیان سے آپ کا تعارف ہوا اور آپ نے عربی زبان میں امام احمدرضا قدس سرہ کے بارے میں انہیں بتایا کہ سر زمین ہندوستان میں سلسلہ قادریہ کو جو فروغ امام احمد رضا قدس سرہ اور ان کے خانوادے سے ملا ہے شاید ہی کسی اور ذات یا خانوادہ سے ملا ہو، پھر چند حوالہ جات پیش فرمائے جس سے وہاں کے شیوخ کافی متاثر ہوئے اور آپ کو سلسلہ عالیہ قادریہ کی اجازت و خلافت اور بہت کچھ تبرکات سے نوازا جو یقینا حضور غوث اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں آپ کی مقبولیت کی واضح دلیل ہے۔

زیارتِ حرمین شریفین

آپ نے 2008 اور 2009 ء میں حرمین شریفین زادھما اللہ شرفا و عزا کی زیارت و حاضری کا شرف حاصل کیا۔

عقدِ مسنون

   حضورتاج الشریعہ کی چوتھی صاحبزادی محترمہ قدسیہ باجی سے ذی الحجہ 1423 ھ مطابق 26 فروری 2003 ء کو آپ کا نکاح ہوا، علامہ تحسین رضا خاں علیہ الرحمہ نے نکاح پڑھایا، نکاح کے گواہ الحاج سراج رضا خاں نوری اور حافظ عبد السبحان نعیمی بنے۔

اولادِ امجاد

   مفتی صاحب کو ایک بیٹا حمزہ رضا اور دو بیٹاں نور فاطمہ اور نور بہجت ہیں۔

بیعت و اجازت

   حضور تاج الشریعہ علامہ مفتی محمد اختر رضا خاں قادری ازہری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف حاصل کیا اور حضرت کی بارگاہ سے مختلف سلاسل کی آپ کو اجازت و خلافت بھی حاصل تھی۔

وصال پُر ملال

   افسوس صد افسوس علم و فضل کا یہ روشن مینار اور مسلکِ اعلی حضرت کا بے باک نقیب، مذہب اسلام کا بے لوث داعی و مبلغ، ہزاروں عاشقوں کو روکتا بلکتا چھوڑ کر 15/رمضان المبارک 1438 ھ بمطابق 11/جون 2017 ء بروز اتوار داعی اجل کو لبیک کہ کر اپنے مالک حقیقی سے جاملا، انا للہ و انا الیہ رٰجعون

 

نمازِ جنازہ

16/ رمضان المبارک بعد نماز فجر تقریبا 5:30 بجے حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ کی اقتدا میں ایک جم غفیر نے جنازے کی نماز ادا کی۔

مزارِ پرُانوار

   اعلیٰ حضرت کے آبائی قبرستان جہاں علامہ شاہ رضا علی خان، علامہ نقی علی خاں، علامہ حسن رضا خاں جیسی مقدس ہستیاں آسودۂ خاک ہیں، آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو اُسی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا جہاں آپ کا مزارِ پرُ انوار مرجع خلائق ہے۔

ابرِ رحمت ان کے مرقد پر گہر باری کرے

حشر تک شانِ کریمی ناز برداری کرے

فنا کے بعد بھی باقی ہے شان رہبری تیری

ہزاروں رحمتیں ہوں اے امیر کارواں تجھ پر

हमारा वाट्स ऐप ग्रुप Join करें.

Please Join Our WhatsApp Group.

براہ کرم ہمارا واٹس ایپ گروپ جوائن کریں۔

Join Group

ilm Ka Khazana Yani Bahar e Shariat Mukammal Ghar Baithe Discount Hadiye Me Hasil Karne Ke Liye Niche Click Karen.

Bahar e Shariat Urdu

Bahar e Shariat Hindi

Discount Offer Books

Don`t copy text!

براہ کرم ہمارا واٹس ایپ گروپ جوائن کریں۔

Join Group(Click)

हमारा वाट्स ऐप ग्रुप Join करें.

Please Join Our WhatsApp Group.